Showing posts with label Karbala. Show all posts
Showing posts with label Karbala. Show all posts
NEW FILM: Karbala - Hussain's Everlasting Stand Chapter One: Prologue
نجف سے کربلا پیادہ روی کی سرسری تاریخ
نجف سے کربلا پیادہ روی کی سرسری تاریخ
نجف سے کربلا کی جانب اس پا پیادہ سفر کی منظم روایت کا آغاز تیرھویں صدی ہجری ہے، شیعہ مجتہد شیخ مرتضیٰ انصاری نے کیا۔ شیعہ محدث میرزا حسین نوری بھی ہر سال پیدل امام حسینؑ کی زیارت کرتے تھے۔ سید محمد مہدی بحر العلوم اہل طوریج کے دستہ عزا کے ساتھ ہمیشہ پیدل زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ جعفر کاشف الغطاء پابندی کے ساتھ پیدل زیارت پر جایا کرتے تھے۔ پیدل سفر کا آغاز ان روایات کی وجہ سے ہوا، جس میں پا پیادہ حج کرنے اور زیارت امام حسین علیہ السلام کی تشویق دلوائی گئی ہے۔ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے خود سواری موجود ہونے کے باوجود حرم خدا تک کا سفر متعدد مرتبہ پا پیادہ کیا، آج عزادارن امامؑ مظلوم پا پیادہ ان کے حرم پر حاضری کو جاتے ہیں۔ مشی کا یہ سفر حج بیت اللہ کی مانند مختلف نسلوں، اقوام اور گروہوں کے مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، جس میں سیاہ لباس زیب تن کیے عشاق حسین علیہ السلام پیدل چل کر امام حسین علیہ السلام سے اپنی وابستگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں کی مانند اس برس بھی یقینا لاکھوں زائرین امام حسین علیہ السلام اربعین کے موقع پر کربلا میں حاضری دیں گے۔تحریر: سید اسد عباس
دنیا میں پہلا شخص جس نے کسی دوسرے شہر سے قبر امام حسین علیہ السلام کی جانب سفر کیا، صحابی رسول ص حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ہیں، آپ چہلم سید الشہداء کے موقع پر مدینہ سے سفر کرکے کربلا تشریف لائے اور چند روز اس مقام پر قیام کیا، دوسرا قافلہ جو اس قبر کی زیارت کے لیے کربلا میں اترا اسیران کوفہ و شام کا قافلہ ہے، جو رہائی کے بعد مدینہ جاتے ہوئے کربلا میں چند روز مقیم رہے۔ توابین بھی کوفہ سے کربلا آئے اور نہر فرات پر انھوں نے غسل شہادت کے بعد اپنی تحریک کا آغاز کیا، جس کا نعرہ یا لثارات الحسینؑ تھا۔ زیارت امام حسین علیہ السلام کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، ہر صاحب توفیق نے قبر حسین علیہ السلام پر حاضری کے ذریعے امامؑ عالی مقام کے مزار اقدس پر اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کیے۔ مسلمان تو ایک جانب غیر مسلم بھی اس زیارت پر حاضری کو اپنے لیے شرف گردانتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند سے سکھوں کے روحانی پیشوا گرونانک بھی کربلا اور دیگر عتبات عالیہ پر حاضر ہوئے اور یہ سلسلہ یقینا تا قیام قیامت جاری و ساری رہے گا۔
2016ء میں مجھے بھی قبر امام حسین علیہ السلام اور عتبات عالیہ نجف، کاظمین و سامرہ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، بصرہ سے نجف اور کربلا، نجف و کربلا سے کاظمین و سامرہ راستے میں مجھے بہت سے ایسی عمارتیں نظر آئیں جن پر لفظ موکب لکھا ہوا دیکھا۔ ذہن میں سوال ابھرا کہ فقط اربعین کے پیدل سفر کے لیے بھلا ان عمارتوں کی کیا ضرورت تھی، یہ کام تو عارضی قیام گاہوں میں بھی انجام دیا جاسکتا تھا، تاہم ماہ صفر میں اپنے قیام کے دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ عراقی تو سارا سال ہی اس سفر میں رہتے ہیں۔ معصومینؑ کی شہادت اور ولادت کی مناسبت سے وہ لوگ پیدل قریبی مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔ عراق میں قیام کے دوران اربعین یعنی 20 صفر گزر گئی اور اٹھائیس صفر آگئی جو کہ شیعہ منابع کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور امام حسن علیہ السلام کا روز رحلت ہے، 27 کی شام ہی ہم نے دیکھا کہ پیدل چلنے والوں کے قافلے حلہ اور مضافات سے حرم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب گامزن ہیں اور وہ موکب جو 22 یا 23 صفر کو بند ہو گئے تھے، ایک مرتبہ پھر آباد ہو چکے ہیں۔ پیدل چلنے والے لوگ ان مقامات پر رہائش پذیر ہیں، وہی مشی کا ماحول ہے جو دنیا کے گوش و کنار سے آنے والے اربعین کے موقع پر ملاحظہ کرتے ہیں۔
عراق میں زیارت کے اس پیدل سفر کو مشی کہا جاتا ہے، جس کا اربعین کے موقع پر خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد مشی کے لیے آنے والے محبان اہل بیت کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہی ہو رہا ہے، دنیا میں انسانوں کے اجتماعات کا حساب و کتاب رکھنے والوں کے مطابق اربعین حسینیؑ دنیا کا دوسرا بڑا اجتماع ہے، جس میں حاضرین کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔ مشی عموما نجف سے کربلا کی جانب کی جاتی ہے، جو قریبا اسی کلومیٹر سے کچھ زائد کا فاصلہ ہے۔ عزاداران امام حسین علیہ السلام بلا تفریق مذہب و ملت یہ سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ آج کل اس مقصد کے لیے ایک الگ سے راہ مختص ہے، جس کے ہر چپے پر موکب موجود ہیں جہاں ان عزاداران سید الشہداء کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ موکبوں کا یہ سلسلہ نجف سے کربلا تک ہی نہیں، عراق کے چپے چپے بالخصوص مقام ہائے زیارت کے گرد و نواح میں پھیلا ہوا ہے۔ بیرونی دنیا سے آنے والے احباب تو نجف سے کربلا تک ہی پاپیادہ سفر کرتے ہیں، تاہم عراق کے رہنے والے افراد کی ایک کثیر تعداد بصرہ، سامرہ، کاظمین، حلہ، کوفہ سے کربلا تک کا سفر پا پیادہ کرتے ہیں۔
نجف سے کربلا کی جانب اس پا پیادہ سفر کی منظم روایت کا آغاز تیرھویں صدی ہجری ہے، شیعہ مجتہد شیخ مرتضیٰ انصاری نے کیا۔ شیعہ محدث میرزا حسین نوری بھی ہر سال پیدل امام حسینؑ کی زیارت کرتے تھے۔ سید محمد مہدی بحر العلوم اہل طوریج کے دستہ عزا کے ساتھ ہمیشہ پیدل زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ جعفر کاشف الغطاء پابندی کے ساتھ پیدل زیارت پر جایا کرتے تھے۔ پیدل سفر کا آغاز ان روایات کی وجہ سے ہوا، جس میں پا پیادہ حج کرنے اور زیارت امام حسین علیہ السلام کی تشویق دلوائی گئی ہے۔ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے خود سواری موجود ہونے کے باوجود حرم خدا تک کا سفر متعدد مرتبہ پا پیادہ کیا، آج عزادارن امامؑ مظلوم پا پیادہ ان کے حرم پر حاضری کو جاتے ہیں۔ مشی کا یہ سفر حج بیت اللہ کی مانند مختلف نسلوں، اقوام اور گروہوں کے مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، جس میں سیاہ لباس زیب تن کیے عشاق حسین علیہ السلام پیدل چل کر امام حسین علیہ السلام سے اپنی وابستگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں کی مانند اس برس بھی یقینا لاکھوں زائرین امام حسین علیہ السلام اربعین کے موقع پر کربلا میں حاضری دیں گے۔ خدا وند کریم زائرین حرم امام کے اس سفر کو آسان اور محفوظ بنائے اور دنیاوی و اخروی سعادتوں کا باعث قرار دے۔ آمین
Share on Whatsapp |
جابر (رض) والا اربعین اور سیلفی والا اربعین!
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جابر (رض) والا اربعین اور سیلفی والا اربعین
تحریر: محمد زکی حیدری
جابر بن عبداللہ (رض)، وجودِ مبارک حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے جوان صحابی تھے. جنگ خندق میں ان کی عمر ۱۶ سال تھی، اس حساب سے جب کربلا کا واقعہ ہوا تو آپ (رض) کی عمر ستر بہتر سال کے لگ بھگ ہوگی. جابر (رض) آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے، لیکن پھر بھی اپنے ایک مشہور محدث دوست عطیہ عوفی (رح) کے ہمراہ اربعین پر کربلا کا رخ کرتے ہیں. عطیہ عوفی نے جابر (رض) کے زیارت اربعین کی کیفیت بیان کی ہے جسے شہید مطہری (رض) نے بیان فرمایا ہے. عطیہ عوفی فرماتے ہیں کہ جابر (رض) نے قبر حسین (ع) کی طرف جانے سے پہلے نہرِ فرات کا رخ کیا، غسلِ زیارت انجام دیا اور اپنے بدن کو سُعد نامی خوشبودار جڑی بوٹی کہ جسے پیس کر پاؤڈر بنا کر استعمال کیا جاتا ہے، سے معطر کیا. عطیہ فرماتے ہیں کہ جابر (رض) جب نہر فرات سے غسل کرکے باہر آئے تو قبرِ حسین (ع) کی طرف دبے قدموں جانے لگے، ہر اٹھتے قدم کے ساتھ ساتھ ان کی زبان پر اللہ (جل جلالہ) کی حمد و ثنا جاری تھی، جب وہ ذکر خدا کرتے کرتے قبر حسین (ع) پر پہنچے تو درد بھرے لہجے میں دو یا تین بار بلند آواز سے کہا: حبیبی یا حسین! اے میرے پیارے حسین! اس کے بعد بلند آواز سے کہا: حَبیبٌ لایجیبُ حَبیبَهُ؟ اے دوست اپنے دوست کو جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس کے بعد رو کر کہا میرے پیارے تم حق رکھتے ہو کہ مجھے جواب نہ دو! اپنے بوڑھے غلام کو جواب نہ دو! میں جانتا ہوں کہ تمہاری رگِ گردن کے ساتھ کیا کیا گیا! میں جانتا ہوں کہ تمہاری گردن دھڑ سے جدا ہے! یہ کہا اور اس کے بعد بے ہوش ہوکر زمین پر گر گئے. تھوڑی دیر بعد جب ہوش میں آئے تو حیرانگی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگے، اس کے بعد اس طرح کہ جیسے وہ اپنی باطنی آنکھوں سے کوئی منظر دیکھ رہے ہوں، کہا: السَّلامُ عَلَیکمْ ایتُهَا الْارْواحُ الَّتى حَلَّتْ بِفِناءِ الْحُسَین تم جوان مردوں پر سلام کو کہ جنہوں نے حسین (ع) پر اپنی جان نچھاور کی! پھر کچھ اور سلام پڑھے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے اس کام میں آپ کے ساتھ شریک تھے! عطیہ پریشان ہو گیا کہ جابر (رض) یہ کیا کہہ رہے ہیں. انہوں نے جابر (رض) سے پوچھا کہ اس جملے کا مطلب کیا ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہیں؟ ہم نے تو تلوار کو چھوا تک نہیں؟ جابر (رض) نے جواب دیا میں نے حضرت رسول اللہ (ص) سے سنا کہ جو شخص تہہ دل سے کسی چیز یا فعل سے محبت رکھتا ہو اور اس کی روح اس چیز یا فعل سے ہماہنگ ہو تو گویا وہ اس کام میں شریک ٹھہرا! اے عطیہ بیشک میں حسین (ع) کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر لڑ نہ سکا، میری مجبوری تھی مگر میرا دل حسین (ع) کے عشق میں شعلہ زن تھا، چونکہ میرا روح و قلب حسین (ع) کے ساتھ تھا لہٰذا میں یہ دعوا کر سکتا ہوں کہ میں بھی حسین (ع) کے ساتھ کربلا میں موجود تھا!
ہائے ہائے! سلام ہو آپ پر اے جابر (رض)! آپ نے ایک حدیثِ پیغمبر (ص) سنا کر ہمیں اتنے بڑے شرف سے مشرف ہونے کا موقعہ دے دیا! حسین (ع) کے انصار ہونے کا شرف! یعنی ہم آج چودہ سو سال بعد اگر دل میں عشقِ حسین (ع) کی تڑپ پیدا کریں تو اس کا انعام یہ ہے کہ گویا حسین (ع) کے ساتھیوں میں شریک ہیں! اللہ اکبر!
لیکن اے جابر! افسوس کہ آپ کا اربعین الگ تھا میرا الگ! آپ کی زبان اقدس پر ذکر خدا تھا میری زبان پر ذکر موکب! ذکر کباب! ذکر سبیل! آپ کے ہاتھ میں قرآن تھا میرے ہاتھ میں سیلفی اسٹک! آپ کا سارا دھیان حسین (ع) کی طرف تھا، میرا سارا دھیان مشی میں میرے ہمراہ جانے والے بچوں اور دوستوں کی طرف! آپ کی زبان پر ذکر خدا و ذکر حسین (ع) اور میری زبان پر کاروان سالار کی غیبت و شکایت کے الفاظ! آپ نے نابینا ہوکر بھی حسین (ع) کے دوستوں کو دیکھ کر انہیں سلام کیا، میں نے دونوں آنکھوں کی بینائی برقرار ہونے کے باوجود بھی نہ جون دیکھا، نہ حبیب ابن مظاہر، نہ وہب کلبی، نہ بریر، نہ زہیر...
آپ نے یا حسین (ع) کی فریاد بلند کی اور بیہوش ہوگئے، میں سؤ بار یاحسین یاحسین (ع) کہہ کر بھی اپنے ہوش و حواس میں رہا!
اے جابر! اے میرے بزرگ! اے پیغمبر کے سچے صحابی! اے حقیقی عاشقِ و زوارِ حسین (ع)! میں آپ کے نام سے توسل کرکے اللہ (ج) کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اس سال میرا اربعین بھی آپ کی زیارتِ اربعین کے مشابہہ ہو! پورے سفر میں ہر قدم پر فکرِ حسین (ع) و ذکرِ حسین (ع) کے سوا میرے وجود کے کسی ظاہری و باطنی گوشے پر کسی اور چیز کا رتی برابر بھی غلبہ نہ ہو. میرا اربعین جابر (رض) والا اربعین ہو، میرا اربعین سیلفی اسٹک والا نہ ہو!
Subscribe to:
Posts (Atom)
Featured Post
Dua e Sanam Quraish
The prayer of Sanam-e-Quraish (the idols of Quraish) is a very authentic prayer of Amir-ul-Momaneen Hazrat Ali bin Abi Talib asws and so has...
Popular Posts
-
Ziyarat al-Arbaeen has been a tradition since the martyrdom of Imam Hussein (as). Millions embark on this journey of love and loyalty annual...
-
Gharib e Toos Film Series Serial based on the life of Imam Ali bin Mousa al-Reza (PBUH), the eighth Imam of Shiites, He is of the progeny of...